CA students aur sardian
Written By Usama Ata ur Rehman Oct 27, 2019
خدا خدا کر کے سردی کی شدت کچھ کم ہوئی تھی کہ۔۔۔۔۔۔
خیر اس سردی سے وہ لوگ بڑے خوش ہوئے ہوں گے جن کے اندر کا شاعر ایسے موسم میں انگڑائیاں مارتا ہے اور انہیں ایسا موسم ہر سو رومانوی طلسم بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔۔۔ ان کے انگ انگ سے سہیل وڑائچ سی آوازیں اٹھتی ہیں
"سرد موسم ، بارش کی بوندیں، گرم لحاف، کافی کی خوشبو اور کپ سے اٹھتا دھواں! عیاشی تو ہوتی
ہوگی؟"۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں میرے اندر سے بھی ثمینہ پیرزادا ٹائپ آواز نکلتی ہے
"کبھی آپ نے سردی کی بے رونق، کلفی جما دينے والی صبح میں، یخ ٹھنڈی ہوا کی چپیڑیں کھاتے ہوئے
بائیک چلائی ہے؟"۔
جس میں بارش کی بوندیں تو نہیں ہاں سامنے سے رکشہ جب آپ کے منہ پر ایک پتلی سمارٹ سی کیچڑ کی
دھار مارے جیسا کہ پوچھتا ہو "ہاں جی ! ہن آرام اے؟!"۔۔۔۔۔
میں اور میرے جیسے سی آے کے سٹوڈنٹس میں سے تقریبا سارے بائیک پر ہی رینگتے پھرتے ہیں ۔ اسلیےِٴ سارے ہی مجھ سے اتفاق کریں گے۔ ھم سی آے کے سٹوڈنٹس کی تو کیا سردیاں اور کیا گرمیآں ، پر سردیاں
خاص طور پر منہ چڑھاتی لگتیں ھیں جب یہ کچھ منچلے لوگوں کو رومانوی بخار چھڑتا۔
ادھر تو صبح صبح اندھا دھند، دھند میں بائیک کو ککیں مار مار جوتوں کے تلوے گھس جاتے کیونکہ انجن
شریف نیپالی ہوئے پڑے ہوتے اور ان کو صبح صبح سٹارٹ کرنا ایسے ہی ہے جیسے چھوٹے بچے کو صبح اسکول کے لیئے جگانا۔
اب کیا بتائیں کے اس سردی میں ہمیں بھی گرم لحاف سے جدائی کے لیئے دل پر پتھر رکھ کر اٹھنا پڑتا اور سردی کی ستم ظریفی صرف بائیک اور سفر تک محدود نہیں، اس سردی میں کلاس لینا بھی اپنا ایک رولا ہے۔یہاں پر پھر ایک سہیل وڑائچ سی آواز گونجتی سنائی دیتی "ٹھنڈی سیٹیں، اس پر تشریف رکھے آپ، خشک جمائیاں، سرد سے ہاتھ، مزے تو ہوتے ہوں گے؟"
اور وہ بھولا مزاک اڑاتا سا نظر آتا
"مزے ہائے، ہائے مزے"
اور جواب میں ہمارے اندر سے وہ روتی ہوئی آلیا بھٹ ٹائپ آواز آتی
"مجھے گھر جانا ہے
جو سی آے کے سٹوڈنٹس کلاس نہیں لینے جا رہے ہوتے وہ پھر یقینا فرم یا کلاینٹ کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں کیونکہ وہ عزت مآب ٹرینی سٹوڈنٹس ہوتے ہیں اور ان کے لیئے بھی ایسی ٹھنڈ میں ترنگ چائے کے "ترنگ ہی ترنگ ہے" نہیں بلکہ فائلیں اور کاغزوں کی مہک اور اکاونٹنگ کے ڈیبٹ اور کریڈٹس ہوتے ہیں۔
اور ہماری صرف صبح ہی بے رنگ نہیں ، خاموش راتیں بھی پھیکی سی گزرتی ہی۔ ٹرینی سٹوڈنٹس تو صبح جب ڈیبٹ اور کریڈٹس کے سمندر میں اترتے ہیں تو ان کی راتیں بھی اسی میں غوطے لگاتے گزرتیں یا پھر ان کی راتیں فائنل کی کلاسیں پڑتے گزرتی ہیں۔
جو دوسرے ہیں وہ ان مہینوں میں امتہانات کی تیاریوں میں لگے ہوتے ہیں اور اکاونٹنگ، آڈٹ اور کارپوریٹ لاء وغیرہ کی کتابیں ان کی خاموش راتوں میں تنہائیوں کی ہم سفر ہوتیں ہیں۔
جیسا کہ سردیوں کے ان مہینوں میں ہمارے ہاں شادی سیزن چل رہا ہوتا تو ایسے میں امتہانات کی تیاریوں میں مصروف مستقبل کے سی آے کو جب کزنوں کے ایس ام ایس آتے ہیں کہ فلاں فنکشن میں آرہے؟ اور جس میں آپ نا جا سکتے ہوں تو وہی فیلنگ آتی
"سندیسے آتے ہیں۔۔۔
َہمیں تڑپاتے ہیں۔۔۔
وہ ایس ام ایس آتے ہیں۔۔۔
وہ پوچھے جاتے ہیں۔۔۔
کے فنکشن میں کب آو گے۔۔۔
کے تم بن یہ فنکشن سونہ سونہ ہے۔۔۔"
سین کٹ اور ادھر سے ہماری فریاد نکلتی ہو
"ہمارے دل سے مت کھیلو ، کھلونا ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔۔"
ایک وہ بھی ٹرینی سٹوڈنٹ تھا۔۔۔
ہوا کچھ یوں کہ اسی طرح ایک سردی کی رات کلائینٹ پر بیٹھا وہ فائلوں اور ریکارڈ کے ساتھ گتھم گتھا تھا اور مینیجر بھی ساتھ بیٹھا آڈٹ ٹیم کے کرتوتوں کا ریویو فرما رہا تھا۔ ایسے میں گرما گرم چائے منگوائی جاتی ہے۔۔۔
آفس بوائے جب چائے لے کر آتا ہے تو وہ ٹرینی سٹوڈنٹ اپنا کپ اپنے دائیں ہاتھ ٹیبل پر رکھ لیتا ہے اور مینیجر صاحب اپنا کپ دونوں کے بیچ سامنے ٹیبل پر رکھ لیتے ہیں اور دونوں اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور سرد رات کی خاموشی میں صرف یہ آوازیں وقفے وقفے سے سنائی دے رہی ہیں۔۔"شررررپ۔۔شششررپ" کہ اچانک ایک آواز گونجتی ہے
"اوووے استاد!" (مینیجر ٹرینی سٹوڈنٹ سے)
"جی سر" ( ٹرینی سٹوڈنٹ)
"اوے میری چائے کہاں گئی؟" (مینیجر)
"سر وہ یہ۔۔۔۔"
تو پتہ چلتا ہے کہ مینیجر صاحب اور ٹرینی بوائے ایک ہی کپ سے شرررپ شششرپ چائے پی گئے اور وہ کپ جو ٹرینی بوائے نے اپنے دائیں رکھا تھا اس میں چائے کب کی ٹھنڈی ہو چکی تھی کہ اب اس کو پینا محال تھا۔۔۔
وہ شعیب بن عزیز صاحب نے یہ شعر سی آے کے سٹوڈنٹس اور سردی کے ستم پر ہی کہا ہوگا۔۔۔
"اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں"
تو سی آے کرنا آسان نہیں بس اتنا سمجھ لیجیئے ، ہری مرچ کی کلفی ہے اور چوس کر کھانی ہے۔۔۔۔
For any CA related queries, contact our team anytime.. Click the messenger icon and send us a message. WhatsApp or call us at 0347-0171480
z